حضورﷺ کا بچپن (سیرت رسول ﷺ)
رسولؑﷺ مکہ میں 9 ربیع الاول 1 عام الفیل(جس سال یمن کے
حاکم ابرہہ نے خانہ کعبہ پر حملہ کیا تھا اور اللہ نے اسے نیست و نابود کر دیا)پیر
کے دن صبح کے وقت پیدا ہوئے اور 20 یا 22 اپریل 571 کی تاریخ تھی-تاریخ ولادت کے
بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ابن خلدون نے 12 اور ابن کثیر نے 9 ربیع الاول کہا
ہے لیکن ماہر فلکیات محمود پاشا کی تحقیق
اور بہت سے سیرت نگار 9 ربیع الاول پر متفق ہیں –جہاں تک پیر کا دن ہے اس پر تمام
سیرت نگا ر متفق ہیں حضورؐ کی اس حدیث کی روشنی میں
"رسولؐ سے سوموار کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا
تو آپؐ نے فرمایا اس دن میری پیدائش ہوئی
اور اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی"(مسلم 1162)
مولانا حالی اپنی مسدس میں لکھتے ہیں:
یکایک ہوئی غیرت حق کو حرکت بڑھا جانب بو قبیس ابر رحمت
ادا خاک بطحا نے کی وہ ودیعت چلے آئے تھے جس کی دینے شہادت
ہوئی پہلوئے آمنہؑ سے ہویدا دعائے خلیلؑ و نوید مسیحا
حضورؐ حضرت ابراہیم ؑ کی دعا اور حضرت عیسیؑ کی بشارت
تھے-قرآن پاک میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
اے ہمارے رب! اور ان میں ایک رسول انہیں میں سے بھیج جو
ان پر تیری آیتیں پڑھے اور انہیں کتاب اور دانائی سکھائے اور انہیں پاک کرے، بے شک
تو ہی غالب حکمت والا ہے۔(البقرہ -129)
اور جب عیسٰی بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل! بے شک میں
اللہ کا تمہاری طرف رسول ہوں (اور) تورات جو مجھ سے پہلے ہے اس کی تصدیق کرنے والا
ہوں اور ایک رسول کی خوشخبری دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو
گا۔(الصف-6)
آپؐ کے والد کا نام عبداللہ تھا جو آپؐ کی پیدائش سے کچھ
مہینے پہلے فوت ہو چکے تھے وہ عبد المطلب
کے سب سے لاڈلے پاکدامن اور خوبصورت بیٹے تھے –آپؐ کی والدہ کا نام آمنہ بنت وہب
تھا جو قریش کی سب عورتوں میں نسب اور فضیلت میں سب سے ذیادہ افضل تھیں۔آپ ؐ کا
نسب نامہ یہ تھا
محمدبن عبد اللہ بن عبد المطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن
قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لؤی بن غالب بن فہر بن مالک بن نضربن کنانہ بن خزیمہ
بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان-
حضورؐ کی نسل نہایت پاکیزہ اور بہترین تھی –حضورؐ کا
ارشاد ہے
"اللہ تعالی نے اسماعیل کی اولاد سے کنانہ کو چنا
،کنانہ سے قریش کو،قریش سے ہاشم کو اور بنو ہاشم سے مجھے منتخب کیا" (صحیح
مسلم-2276)
حضورؐ کے پیدائش کے ساتھ ہی کچھ معجزات رونما ہوئے
–آپؐ کی والدہ ماجدہ کا بیان ہے کہ ان کے
پیدا ہوتے ہی مجھ سے ایک ایسا نور برآمد ہوا کہ ملک شام کے ایوان اس سے روشن ہو
گئے-اور اس کی تائید حضورؐ کی اس حدیث سے ہوتی ہے
حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں
نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : "بے
شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوح محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت
آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل
بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام
کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے
دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور
اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں"-(مسنداحمد-127)
ابن رجب فرماتے ہیں کہ
اس نور کا نکلنا اس نور کی جانب اشا رہ تھا جو آپؐ لے کر آئے تھے جس سے
روئے زمین کے لوگوں نے ہدایت حاصل کی اور اس زمین سے شرک کی تاریکیں ختم ہوئیں –(سیرت
النبیؐ-دکتور علی محمد الصلابی-128)
اس کے بعد آمنہ نے عبدالمطلب کو پوتے کی خوشخبری
بھیجی-عبدالمطلب نے سنا تو دوڑے چلے آئے اپنی مرحوم اولاد کی نشانی کو دل سے لگایا
اور جب آمنہ نے انہیں مختلف واقعات سنائے جو حضورؐ کی پیدائش کے وقت ہوئے تو نہایت
حیران ہوئےاور ان کے نزدیک رسولؐ کی قدرومنزلت اور بڑھ گئی اور کہا میرے اس لڑکے
کی ایک خاص شان ہو گی پھر اسے اٹھا کر خانہ کعبہ لے گئے خدا سے دعا کی اس کا شکر
ادا کیا اور مندرجذیل اشعار پڑھے
الحمد للہ الذی
اعطانی ھذا
الغلام الطیب الاردان
قد ساد فی المھد علی الغلمان اعیذہ باللہ ذی الارکاب
حتی اراہ بالغ البنیان اعیذہ من شر ذی شنئان
من حاسد مضطرب العنان
ہر طرح اور ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ کے لئے ہے جس نے مجھے یہ پاکدامن لڑکا عنایت کیا
یہ وہ لڑکا ہے جو گہوارے میں تمام لڑکوں کا سردار ہو
گیاِ ،اس کو اللہ کی پناہ میں دیتا ہوںاور اس کے لئے خدا سے پناہ مانگتا ہوں
یہاں تک کہ میں اسے طاقتور اور توانا دیکھوں،میں اس کی
نسبت بغض رکھنے والےکے شر سے پناہ مانگتا ہوں
میں اس حاسد سے پناہ مانگتا ہوں جسے ایک روش پر قرار نہ رہے-
حضورؐ کی ولادت اور یہودی:
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حسان ابن ثابت سے ایک روایت ہے
کی جب میں چھوٹا تھا تو ایک دن ایک یہودی ایک ٹیلے پر چڑھا اور زور زور سے چلانے
لگا اے گروہ یہود اے گروہ یہود ،یہاں تک کہ سب یہودی جمع ہو گئے اور کہا کیوں
چیختے ہواس نے کہا آج کی رات وہ ستارہ طلاع ہو گیا جس کے طلوع کے ساتھ احمد کی
ولادت واقع ہونے والی تھی-
حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ایک یہودی مکہ میں تجارت کرتا
تھا۔جس روز حضورؐ کی ولادت ہوئی اس دن اس نے قریش سے پوچھا تم لوگوں کے گھر میں
کسی کا فرزند ہوا ہے معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ مرحوم عبد اللہ کا بیٹا ہوا ہے اس
یہودی نے کہا کہ مجھے لے جا کر جاؤ میں نے اس بچے کو دیکھنا ہے-یہودی کی درخواست
پر اس کو اس مکان لے گئے جہاں حضورؐ پیدا ہوئے تھے اس نے کہا مجھے بچے سے ملواؤ جب
بچے کو باہر لایا گیا تو اس نے دیکھا کہ آپؐ کا چہرہ مبارک چاند سے ذیادہ روشن ہے
یہ نور نبوت تھی جس کے آثار اس نور کی صورت میں آپؐ کے چہرے او پیشانی سے ظاہر
تھے-یہ دیکھ کر یہودی بیہوش ہو گیا –جب اسے ہوش آیا تو لوگو ں نے پوچھا تمہیں کیا
ہو گیا تھا تو اس نے کہا
"آج ہم بنی اسرائیل سے نبوت کا سلسلہ تمھاری قوم
میں منتقل ہو گیاتمھیں خداکی طرف سے یہ نعمت مبارک ہویہ فرزند تم پر اس طرح غلبہ
کرے گا کہ مشرق و مغرب میں اس کی شہرت ہو گی"-(تاریخ ابن کثیر-ابن
کثیر-ص166،167-ج2)
عقیقہ اور نام:
ساتویں روزعبد المطلب نے عقیقہ کیا اور تمام قریش کی دعوت
کی اور "محمدؐ" نام رکھا –قریش والوں کو تعجب ہوا کہ خاندانی نام چھوڑ
کر یہ کیسا نام رکھ لیا تو انہوں نے جواب دیا "میں چاہتا ہوں میرا بچہ دنیا
بھر میں ستائش اور تعریف کا لائق قرار پائے-حسان ابن ثابت اکثر یہ شعر کہا کرتے
تھے
وشق لہ من اسمہ لیجلہ فذو العرش محمود و
ھذا محمد
اللہ نے اس کی عظمت ظاہر کرنے کے لئےاس کا نام اپنے نام سے
مشتق کیا دیکھو رب العرش تو
محمود ہےاور آنحضرتؐ محمد ہیں
ابن خلدون کے مطابق آمنہ نے آپؐ کانا م احمد رکھا تھا اس
وجہ سے کہ آپ نے خواب میں ایک فرشتہ کو دیکھا تھا جس نے کہا تھا کی آپ کا نام احمدؐ
رکھنا-حضورؐ فرماتے ہیں
میرے پانچ نام ہیں: میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور
میں ماحی ہوں کہ میرے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹائے گا، اور حاشر ہوں کہ لوگ
میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے اور میں عاقب ہوں جس کے بعد کوئی نبی نہیں
ہے-(جامع ترمذی -3075)
رضاعت:
سب سے پہلے حضورؐ کی الدہ نے آپؐ کو دودھ پلایا –اس کے
بعد ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایا-آپؐ سے پہلے انہوں نے سیدنا حمزہ کو بھی
دودھ پلایا تھا سو یہ ان کے رضاعی بھائی بھی تھے-آپؐ کو آپ کے والد کی لونڈی ام
ایمن گود کھلایا کرتی تھیں وہ حبشن تھیں اور ان کا نام برکت تھا حضورؐ نے بعد میں
انہیں آزاد کردیا –انہوں نے نبوت کا دور پایا اسلام لائیں ہجرت کیا حضورؐ نے ان کی
شادی حضرت زید بن حارثہ سے کی اسامہ بن زید انہیں کے بیٹے تھے اور آپؐ کی وفات کے بعد فوت ہوئیں-
عرب میں یہ
دستور تھا کہ بچے کہ پیدا ہونے کے بعد ان کو دیہات کی طرف بھیج دیا جاتا تھا تاکہ
وہاں کی کھلی اور صاف فضا میں پرورش پا کر بہترین صحت بنائیں اور خالص عربی زبان
سیکھ سکیں-سال میں دو مرتبہ یہ عورتیں دیہات سے شہر آتیں اور بچوں کو گود لے کر
واپس چلی جاتی –جس سال حضورؐ پیدا ہوئے تو بنی سعد بن بکرکی دس عورتیں آئی جن میں
حلیمہ سعدیہ بھی تھیں ان کے شوہر کا نام حارث تھا اوران کا ایک شیر خوار بچہ بھی تھا جس کا نام عبد اللہ
تھا اور ان کی دو بیٹیاں بھی تھیں جو
انیسہ اور خذامہ (جو شیماء کے لقب سے مشہور تھی)تھیں-حلیمہ نے آپؐ کو گود لیا اور
اگلے چار سال تک حضورؐ انہیں کے پاس رہے-
حلیمہ سعدیہ ،حضورؐ اور برکتوں کا ظہور:
عبداللہ ابن جعفر بیان کرتے ہیں کہ جب حضورؐ کی پیدائش
ہوئی تو بنو سعد بن بکرکی کچھ عورتیں جن میں حلیمہ تھیں مکہ آئیں تاکہ بچوں کو گود
لے سکیں-حلیمہ کہتی ہیں وہ اپنی گدھی پر سوار ہو کرسب سے پہلے روانہ ہونے والی
عورتوں میں تھیں -میرے ساتھ میرے شوہر اورشیر خوار بیٹا بھی تھے-ہمارے ساتھ ایک اونٹنی تھی جو
دودھ کا ایک قطرہ بھی نہیں دیتی تھی-اس زمانے میں قحط پڑا تھااور بھوک کی وجہ سے بہت مشکلات تھیں۔ساری رات بیٹا نہیں سوتا تھا
اور ہم بارش کی امید لگائے بیٹھے تھے کہ بارش ہو اور ہماری خوشحالی واپس لوٹ آئے-
حلیمہ فرماتی ہیں قحط کی وجہ سے ہماری گدھی سب قافلے
والوں سے پیچھے رہ گئی تھی اور جب ہم مکہ پہنچے تو قافلے والوں کی تمام عورتوں نے
بچے گود لے لیےتھے اور جب ان سے پوچھا کہ کوئی بچہ بچا ہے تو انہوں نے کہا کہ ایک
یتیم بچہ ہےاسے لے لو –حلیمہ فرماتی ہیں یہ سن کر مجھے بہت دکھ ہوا- کیونکہ یتیم
کو گود میں لے کر کسی خاص فائدہ کی توقع نہ تھی-
حلیمہ فرماتی ہیں کی وہ ساری رات آنکھوں میں اسی طرح
گزر گئی بچہ بھوک سے نڈھال پڑا تھااور مجھے اس بات کا افسوس تھا کہ قافلے والی
تمام عورتیں کل بچوں کو لے کہ روانہ ہو جائیں گی اور خالی ہاتھ مجھے جانا گوارا نہ
تھا-صبح اٹھ کر میں نے اپنے شوہر سے کہا اگر کہو تو میں اس یتیم بچے کو گود لے لوں
تاکہ تاکہ بغیر بچے کے نہ رہوں اور مجھے اپنے قافلے والی عورتوں کے سامنے شرمندہ
نہ ہونا پڑے-شوہر نے کہا جا کر لے لو کیا پتہ اللہ نے اس میں ہمارے لئے کوئی بہتری
رکھی ہو-
جب حلیمہ سعدیہ بی بی آمنہ کے گھر گئ تو وہ ان سے نہایت
خندہ پیشانی سے ملیں اور اس نے جو دودھ پلائی کے لئے رقم دی وہ میری توقع سے کہی
ذیادہ تھی اور جب میں نے بچے کو گود لیا تو وہ اتنا خوبصورت تھا کہ اس سے خوبصورت
بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا تھااور جب وہ میرے سینے سے لگا تو مجھے اتنا سکون ملا
کہ میں بیان نہیں کر سکتی-
حلیمہ فرماتی ہیں مکہ سے واپسی میں میں مایوس ہونے کے
بجائے اپنے اپ کو ذیادہ خوش قسمت سمجھ رہی تھی کہ میں نے جو بچہ گود لیا ہے وہ ان
تمام بچوں سے ذیادہ خوبصورت ہے اور جب سے میری گود میں آیا ہے بالکل نہیں رویا جب
کہ دوسری عورتوں کے پاس جو بچے تھے وہ روئے جا رہے تھے-اور جب میں نے اسے اپنے
آغوش میں لیا تو میری دونوں چھاتیاں دودھ سے بھر گئیں اور حضورؐ اور اس کے دودھ
شریک بھائی نے خوب پیٹ بھر کے پیا اور ہماری اونٹنی جو اس سے پہلے ایک قطرہ دودھ
نہیں دیتی تھی نے اتنا دودھ دیا کہ میں اور میرے شوہر نے پیٹ بھر کے پی لیا -ابن
سعد لکھتے ہیں کی آمنہ نے حلیمہ کو حضورؐ کی ولادت کے وقت جو کچھ ہوا سب بتا دیا
اور کہا مجھےتین شب متواتر کہا گیا کہاپنے بچے کو قبیلہ سعد بن ابی بکر میں پھر آل
ابوذویب میں دودھ پلوانا-اور حلیمہ کے باپ کا نام ابو ذویب تھا -ابن سعد لکھتے ہیں
جب آمنہ نے حضورؐ کو حلیمہ کے حوالے کیا تو انہوں نے یہ اشعار پڑھے
اعیذہ اللہ ذوالجلال من شر
ما مر علی الجبال
حتیٰ اراہ حامل الحلال و یفعل العرف الی الموال
وغیرھم من حثوۃالرجال
جسم پر جو شر گزرتے ہیں،جو بدی وہ خرابی لاحق ہوتی ہےجو
آفات پیش آتے ہیں ان سب سے میں اپنے بچے کوخدائے ذی الجلال کے پناہ میں دیتی ہوں
میں اس وقت تک اس کو خدا کی پناہ میں دیتی ہوں کہ اسے
امر حلال کا حامل اور غلاموں کے ساتھ نیکی کرتے دیکھ لوں
اور صرف غلاموں کے ساتھ یہ نہیں بلکہ یہ بھی دیکھوں کہ
ان کے علاوہ دوسرے ادنی درجےکے لوگوں کے ساتھ بھی وہ نیکیاں کر رہا ہے
حلیمہ فرماتی ہیں جب ہم مکہ سے واپس ہوئےتو وہ گدھی جو
قافلے میں سب سے پیچھے رہ گئی تھی اب سب سے آگے دوڑ رہی ہے-قافلے کی عورتوں نے
پوچھا
اے ابو ذویب کی
بیٹی "یہ وہی گدھی ہے جس پر تو مکہ
آئی تھی"
تو میں نے کیا "ہاں"
انہوں نے کہا"واللہ اس کی تو اب عجیب کیفیت ہے"-
میں نے کہا"میں جس بچے کو لے کر اس پہ سوار ہوئی
ہوں وہ بڑا با برکت ہے-"
اس کے بعد جب وہ اپنے گھر پہنچے تو تو ان پر مزید خیر و
برکت برسنا شروع ہوئی قحط کا زمانہ تھا مگر ان کی بکریاں باہر سے خوب پیٹ بھر کے
آتی اور خوب دودھ دیتی اور ہم خوب سیر ہوتےجب کہ دوسرے لوگوں کی بکریاں اسی طرح
خالی پیٹ واپس آتی اور کسی کو ایک قطرہ
دودھ بھی نصیب نہ ہوتا تھا-اور ہم مسلسل ان برکتوں کو دیکھ رہے تھے جو اس بچے کے
آنے کے بعد ہم پر ہو رہی تھیں یہاں تک کے دو سال پورے ہوگئے اوردودھ چھڑوادیا گیا اس بچے کی نشونما باقی تمام بچوں سے بہت اچھی
تھی - بنو سعد کے ماحول میں رہ کر آپؐ نے فصیح عربی زبان سیکھ لی اور رسولؐ اسی کے
بارے میں فرماتے تھے کہ
" میں تم میں سب سے ذیادہ فصیح تر ہوں کیونکہ میں قریش
کے خاندان میں سے ہوں اور میری زبان بنی سعد کی زبان ہے"
سر ولیم میور لائف آف محمد میں لکھتے ہیں"محمدؐ کی
جسمانی حالت بہت اچھی تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے پانچ سال بنو سعد میں
گزارے تھے اور اسی وجہ سے ان کی تقریرجزیرہ نمائے عرب کے خالص نمونہ کے موافق
تھی"-(سیرۃ النبیؐ-شبلی نعمانی-137-بحوالہ لائف آف محمدؐ)
اس کے بعد
حلیمہ آُپؐ کو مکہ لے گئی کیونکہ اس کی
مدت رضاعت ختم ہوگئی لیکن میری اور میرے شوہر کی یہ خواہش تھی کہ ہم اس بچے کو
دوبارہ لے جائیں اس کی برکتوں کی وجہ سے جو ہم پر ہو رہی تھیں چناچہ ہم نے ان کی
ماں سے کہا آج کل مکہ میں وبا پھیلی ہوئی ہے اس لیئے اس کی صحت کو خطرہ لاحق ہو
سکتا ہے اور ہمارے پرزور اصرار کے بعد انہوں نے ہمیں اجازت دے دی-
شق صدر:
مدت رضاعت ختم ہونے کے بعد بھی آپؐ بنو سعد میں رہے-جب آپؐ
چار یا پانچ سال کے ہوئے تو اور آپؐ اپنے رضاعی بھائیوں کے ساتھ بکریاں چرانے گئے
تھے دو فرشتوں نے آکر آپؐ کو لٹایا اور
سینہ چاک کیا اس سے دل نکالا اور دل سے
ایک لوتھڑا نکالا اور کہا یہ شیطان کا حصہ ہے اور اسے نکال کر پھینک دیا پھر دل
کوایک طشت میں زم زم کے پانی سے دھویا اور اور اسے جوڑ کر اسی جگہ لوٹا دیا –ادھر
آپؐ کے رضاعی بھائی دوڑ کر اپنی ماں کے پاس پہنچے اور کہا کہ ہمارے قریشی بھا ئی
کو کسی نے مار دیا –ماں دوڑتی ہوئی وہاں گئی دیکھا تو آپؐ کا رنگ اترا ہوا ہے-اس
واقعہ کے بعد حلیمہ کو آپؐ کے بارے میں خطرہ لاحق ہوا اور انہوں نے فیصلہ کیاکہ
انہیں با حفاظت اپنی ماں کے پاس واپس لوٹا دیا جائے-
شق صدرکی حکمت بیان کرتے ہوئے ڈاکٹر رمضان بوطی لکھتے
ہیں"یہ حکمت الٰہی تھی کہ حضورؐ کو بچپن ہی سےوحی
کے لئے تیار کیا جائےاور ہر قسم کے شر سے محفوظ رہنے کا سامان کردیا جائےتاکہ یہ
چیز لوگوں کو آپؐ پر ایمان لانے اورآپؐ کی رسالت کی تصدیق پر آمادہ کرسکےگویا آپؐ کی روحانی پاکیزگی کا آپریشن تھا"-(سیرت
النبیؐ،دکتور علی محمدصلابی ِ142،بحوالہ فقہ سیرہ للبوطی)
اس کے علاوہ ایک اور سبب بھی آپؐ کو واپس کرنے کا تھا –ایک دفعہ
حبشہ کے چند نصاری ٰنے حضورؐ کو حلیمہ کے ساتھ دیکھ کر کہاکہ اس لڑکے کو ہم اپنے
شہر لے جاتے ہیں یہ لڑکا صاحب ظہور نظر آتا ہے-پس جب حلیمہ نے یہ باتیں سنیں تو
انہیں خوف لا حق ہوا اور انہوں نے حضورؐ کو واپس اپنی ماں کو پاس لوٹانے کا فیصلہ
کر لیا-
جب حلیمہ انہیں واپس کرنے آئیں تو مکہ کے قریب ان سے حضورؐ
گم ہوگئے وہ دوڑی دوڑی عبدالمطلب کے پاس گئیں اور انہیں بتایاوہ چند لوگوں کے
ہمراہ انہیں ڈھونڈنے نکلے لیکن ایک قریشی آپؐ کو تلاش کر کے دادا کے پاس لے آئے
–عبدالمطلب نےآپؐ کو کندھے پر بٹھا کر طواف کیا
دعا کی اور والدہ ماجدہ کے حوالے کیا-
والدہ کی آغوش میں:
جب آپؐ چھ سال کے ہوئے تو آُ کی والدہ اپنے مرحوم شوہر کی
قبر کی زیارت کے لئے مدینہ روانہ ہوئیں –آپؐ اور ام ایمن بھی ساتھ تھیں –یثرب میں قبیلہ بنو نجار میں ایک مہینہ قیام کیا جہاں
آُپؐ کے والد کی قبر تھی-آپؐ کی ذہانت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک
مہینے کے قیام کے دوران انہیں وہ واقعات یاد تھے اور جب آپؐ نے مدینہ ہجرت کی تو
اکثر فرمایا کرتے تھے کہ یہاں کے ایک بڑے چشمے میں میں نے تیراکی سیکھی تھی اور
بچوں کے ساتھ کھیلا کرتا تھا خاص کر انیسہ کے ساتھ اور ہم دونوں مل کر مینار کی
چوٹی پر بیٹھنے والے پرندوں کو اڑایا کرتے تھے-
ابن سعد لکھتے ہیں کہ مدینہ میں قیام کے دوران کچھ یہودی
آآکر آپؐ کو دیکھتے تھے اور کہتے تھے کہ کہ یہ اس امت کے پیغمبر ہیں اور یہی اس کا
دار الھجرہ ہے-اور ام ایمن فرماتی ہیں کہ میں نے ان باتوں کو ذہن نشین کر لیا-
ایک ماہ قیام کرنے کے بعد جب آمنہ واپس لوٹیں تو مکہ اور
مدینہ کے درمیانی راستے ابوا کے مقام پر بیمار ہو گیئں اور وہی پر ان کا انتقال ہو
گیا –آپؐ چھ سال کی عمر میں والدہ کے سایہ سے بھی محروم ہوگئے –ام ایمن آپؐ کو بحفاظت
اپنے ساتھ واپس لے آئیں اور دادا عبد المطلب کے حوالے انہیں کر دیا-
دادا کی محبت اور ان کا انتقال:
والدہ کے بعد آپؐ کی پرورش دادا نے کی-وہ حضورؐ سے بےحد
پیار کرتے تھے اور اپنی اولاد سے بھی بڑھ کے چاہتے تھے-ان کے خاص فرش پر کسی دوسرے
کو بیٹھنے کی اجازت نہیں تھی اس پر آپؐ کوبیٹھنے کی اجازت تھی-آپؐ کو اپنے سے الگ نہ کرتے اور آپؐ
کی حرکتیں دیکھ کر بے انتہا خوش ہوتے اور کہتے کہ میرے اس بیٹے کی نرالی شان ہو گی-جب
تک حضورؐ نہ آتے تو اس وقت تک دادا کھانا نہیں کھاتے تھے-آپؐ کو دادا جو کام بھی
دیتے آپؐ اس کو پورا کر دیتے-ایک دن عبدالمطلب کے اونٹ کھو گئے تو انہوں نے حضورؐ
کو بھیجا یہاں تک کہ آپؐ نے کافی دیر کر دی –دادا انتہائی پریشان ہو گئے خانہ کعبہ کے گرد طواف کرتے اور اللہ سے دعا
کرتے
رب رد راکبی محمدا ردہ لی واصنع عندی یدا
اے میرے پروردگار میرے سوار محمد کو لوٹا دے ،اسے واپس کرکے مجھ پر احسان فرما
اتنے میں محمدؐ اونٹ لئے واپس آگئے دادا نے اسے اپنے سینے
سے لگایا اور قسم کھائی کہ اس کے بعد آپؐ کو اس طرح کہیں بھی اکیلے نہیں چھوڑیں
گے-
دونوں دادا اور پوتا ایک دوسرے سے دلی محبت کرتے تھے یہاں
تک کہ حضورؐ آٹھ برس کے ہو گئے اوربوڑھے دادا فوت ہوگئے-حضورؐ کو ان کی وفات کا
انتہائی دکھ ہوا اور کہا جاتا ہے کہ جب جنازہ اٹھا تو آپؐ فرط محبت سے روئے جارہے
تھے-مرتے وقت دادا نے آپؐ کو چچا ابوطالب کی کفالت میں دے دیا-
ابوطالب کی کفالت میں:
ابوطالب اور حضورؐ کے والد عبداللہ دونوں کی ایک ہی ماں
تھی-ابولہب بھی ان کے بھائی تھے لیکن چونکہ ابولہب آوارہ طبیعت کے مالک تھے اسی لئے دادا نے انہیں
ابوطالب کے حوالے کیا-ابوطالب نے حضورؐ کو انتہائی شفقت سے پالا –اپنے بچوں سے بڑھ
کر پیار کیا سوتے تو حضورؐکو ساتھ لے کر سوتے اور جب باہر جاتے تو آپؐ کو ساتھ لے
کر جاتےاور جب حضورؐ پیغمبری کے رتبے پر فائز ہوئے تو خود مسلمان نہ ہوئے لیکن
حضورؐ کے مضبوط حمایتی رہے اور آپؐ کو ہر مصیبت سے بچاتے رہے-ان
کی بیوی نے بھی آپؐ سے نہایت شفقت کا برتاؤ کیا
اور جب وہ فوت ہوئیں تو کسی نے حضورؐ سے کہا آپ ایک بوڑھی عورت کی وفات سے
اتنے غمگین کیوں ہیں تو آپؐ نے جواب دیا
کیوں نہ ہوں جب میں ان کے گھر میں ایک یتیم بچہ تھا تو وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ
کر مجھے کھلاتی تھی اور اپنے بچوں کو چھوڑ کر میرے سر میں کنگھی کرتی تھی وہ میرےلیے میری ماں کی طرح تھیں-
حضورؐ اپنے چچا سے بھی بہت محبت رکھتے تھے-ایک دن ابو طالب
اور ابولہب میں جھگڑا ہوا –ابولہب نے اپنے بھائی کو زمیں پر گرا دیا اور اس کے
سینے پربیٹھ کر اسے مارنے لگا –محمدؐ نے یہ دیکھا تو دوڑتے ہوئے گئے اور ابولہب کو
ان کی چھاتی سے ہٹایا –اس کے بعد ابوطالب اٹھے اور انہوں نے ابولہب کو نیچے گرایا
اور اس کے منہ پر مکے مارے ۔بعد میں ابولہب نے حضورؐ سے کہا میں بھی ویسے تمھارا
چچا ہوں جیسے ابوطالب تھا –تم نے وہ کچھ کیا جو تمھیں میرے ساتھ کرنا تھا لیکن تم
نے یہی سب کچھ ابوطالب کے ساتھ کیوں نہیں کیا واللہ میں تم سے آج کے بعد تم سےکبھی
بھی محبت نہیں کروں گا-اور بعد کے واقعات نے ثابت کردیا کہ جب حضورؐ کو نبوت ملی
تو خاندان میں سب سے ذیادہ مخالفت ابو لہب نے کی-
ایک دفعہ ایک قیافہ شناس مکہ آیا-قریش کے لوگ اپنے بچوں کو
لے آئے تاکہ ان کے حالات بتا سکے –ابوطالب بھی حضورؐ کو لائے-اس نے حضورؐ کو دیکھا
اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو گیا کام سے فارغ ہوا تو کہنے لگا وہ لڑکا کیا ہے
جسے میں نے ابھی دیکھاوہ لڑکا ہونہار معلوم ہوتا ہے اور ضرور اس کی شان ظا ہر ہوگی
ابو طالب نے جب اس کی یہ باتیں سنی تو اس نے حضورؐ کو وہاں سے ہٹا دیا اور اس
قیافہ شناس کے بہت اصرار کے بعد بھی ابوطالب نے آپؐ کو نہیں دکھایا اور اپنے ساتھ
واپس لے گئے-
ابوطالب کا کنبہ بڑا تھا اور ذرائع آمدن ذیادہ نہیں تھی اس
لئے جب حضورؐدس سال کے ہوئے تو انہوں نے اپنے چچا کی آمدنی میں اضافے کے لئے بکریاں
چرانے کا کام شروع کیا –فرانس کہ ایک تاریخ دان لکھتے ہیں کہ ابوطالب حضورؐ کو
ذلیل کرنا چاہتے تھے اس لئے ان پر یہ کام کیا حلانکہ عرب میں بکریاں چرانا معیوب
کام نہ تھا بڑے بڑے شریفوں کے بچے بکریاں چراتے تھے( سیرت نبوی-شبلی نعمانی-140)
حضورؐ فرماتے تھے "جو بھی نبی گزرا ہے اس نے بکریاں
چرائیں ہیں صحابی نے پوچھا جناب رسول اللہ آپ نے بھی آپؐ نے فرمایا ہاں اجرت لے کر
اہل مکہ کی بکریاں چرایا کرتےتھا-"(بخاری -2262)
ابن سعد لکھتے ہیں کی کہ جابر بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ
رسول ؐ کے ہمراہ ہم اراک کے پکے پھل چنتے تھے حضورؐ نے فرمایاجو سیاہ ہوتے ہیں وہ
لو کہ وہ سب سے اچھے ہوتے ہیں ،میں جب بکریاں چراتا تو میں اسے بھی چنتا تھا-ہم نے
عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ بکریاں بھی چراتے تھے ؟فرمایا ہاں کوئی ایسا پیغمبر نہیں
جس نے بکریاںنہ چرائی ہوں-
آپؐ کو اللہ تعالی نے بچپن سے ہی ہر برے کام سے دور رکھا
اور ہر شرک والی چیز سے حفاظت فرمائی –ایک دفعہ مکہ میں ایک شخص نے بڑی دعوت کا
اہتمام کیا –آپؐ کا بھی محفل میں جانے کا دل ہوا –انہوں نے اپنے ساتھی سے کہا کہ
آج تم میری بکریاں کا خیال رکھو کل میں تمھاری جگہ حفاظت کر لوں گا –حضورؐ اپنی
بکریاں اس کے حوالے کر کے روانہ ہوئے جب پہنچے تو ابھی محفل شروع نہیں ہوئی تھی حضورؐ
باہر بیٹھ گئے اور ابھی بیٹھے نہیں تھے کی نیند نے ان کو آلیا اور صبح سورج کی تپش
کی وجہ سے اٹھے –اللہ نے آپؐ کو ایسی محفلوں سے حفاظت فرمائی اور اس کے بعد آپؐ نے
ہمیشہ کے لئے ایسی محفلوں میں جانے کا
ارادہ ترک کر دیا-
مکہ میں ہر سال ایک میلہ لگتا تھا اور تمام لوگ اس میں حصہ لیتے تھے –حضورؐ ہمیشہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا کر
شرکت نہ کرتے ۔ایک دفعی آپؐ کی چچیوں نے آپؐ کو اللہ کی ناراضگی سے ڈرایا تو حضورؐ
ان کے ساتھ گئے لیکن میلے کے درمیان سے اٹھ کر اپنے ٹینٹ واپس آگئے-محمدؐ کا رنگ
زرد تھا اور آپؐ کپکپا رہے تھے-لوگوں کے پوچھنے پر آپؐ نے بتایا کہ مجھے کچھ عجیب
شکلیں دیکھنے کو ملیں جنہوں نے مجھے اس میلے میں شرکت سے منع فرمایا-آپ ؐ کی یہ
حالت دیکھ کر پھر کسی نے بھی دوبارہ حضورؐ کو اس میلے میں شرکت کا نہیں کہا -ام
ایمن فرماتی ہیں یہ بوانہ کا میلہ تھا اور اس میں شرکت کرنے والی اپنے سر گنجے
کرتے اور قربانی دیتے اور یہ قربانی بتوں کے لیئے دی جاتی اس لیئے-اللہ نے ان پر خاص فضل کیا اور آپؐ کو
شرکیہ کاموں سے دور رکھا –
ایک دفعہ مکہ میں بہت زور کا قحط پڑا –قریش والوں نے
ابوطالب سے کہا چلیے بارش کی دعا کرتے ہیں –ابوچالب اپنے ساتھ ایک بچے کو لے کر
باہر نکلے ان کا ہاتھ پکڑ کر اس کی پیٹھ کعبہ کی دیوار سے لگا دی اور اس بچے سے دعا کروائی –اس وقت آسمان پر
بالکل بادل نہ تھے –اچانک آسمان پر بادل آنا شروع ہو گئے اور ایسی موسلادھار بارش
ہوئی کہ جل تھل ہو گیا –یہ بچہ محمدؐ تھے –بعد میں ابوطالب اسی واقعے کی طرف اشارہ
کر کے حضورؐ کی تعریف میں کہتے تھے
ابیض یستسقی الغمام بوجہ ثمال الیتامی عصمۃ للارامل
وہ خوبصورت ہیں،ان کے چہرے سے بارش کا فیضان طلب کیا جاتا
ہے
یتیموں کا ماوی اور بیواؤں کے محفافظ ہیں
حرب الفجار:
حضورؐ جب 14 یا 15 پرس کے ہوئے تو قریش اور قیس عیلان کے
درمیان باہمی اختلافات کی وجہ سے جنگ ہوئی –آپؐ چونکہ اس وقت عمر میں چھوٹے تھے
اور ان کا یہ کام ہوتا تھا کہ اس جنگ میں اپنے چچاؤں کو تیر پکڑاتے تھے –اور اس
میں قریش والوں کو فتح حاصل ہوئی لیکن آپؐ کے ہاتھوں کسی کا قتل نہیں ہوا-
اللہ تعالی نے حضورؐ کی تربیت ایسی کی کہ جب آپؐ جوان ہوئے تو سب سے ذیادہ
نیک اعلی اخلاق کے مالک تھے-آپؐ پیدائشی یتیم اور بچپن میں ماں کی شفقت سے محروم ہو گئے تھے لیکن اس کے باوجود اللہ نے آپؐ کو
بہتر ٹھکانہ دیا-بنی سعد میں پرورش کی وجہ سے آپؐ
فصیح عربی بولتے جس کا اعتراف مستشرقیں نے بھی کیا ہے اور وہاں آپؐ کی صحت
پر بہت اچھے اثرات پڑے-اما م غزالی فرماتے ہیں "دیہاتی ماحول کے بے شمار
فوائد ہوتے ہیں۔وہاں کی کھلی آب و ہوا کی وجہ سے بچوں میں فطر ی صلاحیتیں بڑھتی
ہیں اعضاء مضبوط ہوتے ہیں احساسات جنم
لیتے ہیں اور افکار و نظریات میں حریت پیدا ہوتی ہے"۔(سیرت النبیؐ-دکتور محمد
الصلابی-139)
بچپن ہی سے آپؐ
جاہلیت سے بیزار تھے اور عام بچوں کی طرح کھیل کھود نہ کرتے بلکہ تنہا ئی کو پسند
کرتے-اللہ نے آپؐ کو ہر برے کام سے بچائے رکھا اور اگر کبھی آپؐ نے ارادہ بھی کیا
یا دوسروں نے مجبور کیا بھی تو اللہ کی مدد سے آپؐ اس کی گرد تک پہنچنے نہیں دیا-بچپن سے آپؐ میں ذہانت کوٹ کوٹ
کے بھری تھی اور آپنے چچا کی مالی حالت دیکھتے ہوئے ان کی مدد کی اور یہی وجہ ہے
کہ حصول معاش کے لئے آپؐ نے بکریاں چرائیں -بکریاں چرانے کی وجہ سے آپؐ میں صبر
اور قناعت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی تھی-
حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ نبوت سے قبل انبیا ء کا بکریاں
چرانا میں حکمت یہ ہےکہ ان کا اپنی امت کوسدھارنے کا فریضہانجام دینے کی مشق ہو
جائےکیونکہ یہ ایک ایسا کام ہے جس دےان میں
حلم و شفقت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور بکریاں چرانے میں بڑا صبر کرنا پڑتا
ہے-یہ سب ایسے کام ہیں کہ ان کی وجہ
سےانبیاء کو اپنی امت کی تربیت اوررہنمائی کے وقت صبر کرنا آسان ہو جاتا ہےاور
بکریاں چرانے کے تذکرہ سے یہی ثابت ہوتا ہو کہ آپؐ ا نتہائی متواضع اور احسان شناس
شخصیت تھے اور آپؐ کی طبیعت میں بے حد انکساری تھی(سیرت النبی- ڈاکٹر مہدی رزق
اللہ-بحوالہ فتح الباری) –
یہی بچپن کی تربیت تھی کہ کب آپؐ جوان ہوئے تو مکہ میں صادق
اور امین کے لقب سے مشہور ہوئے اور آپؐ کی پارسا ئی ،اچھے اخلاق ،نرم دلی،نیک نیتی
کی وجہ سے پورے مکہ میں آپؐ کہ شہرت ہر طرف پھیل گئی-
کتابیات
نفیس اکیڈمی کراچی 2003 |
1)تاریخ ابن خلدون
علامہ عبدالرحمان ابن خلدون |
دار النفائس الاردن
1995 |
2)السیرۃالنبویۃ
ابراھیم العلی |
ممتاز اکیڈبی لاہور |
3)الخصائص الکبری
امام جلال الدین السیوطی |
دار الاندلس لاہور |
4)مختصر سیرۃ النبیؐ مولانا
صفی الرحما ن مبارکپوری |
مکتبہ اسلامیہ لاہور 2012 |
5)سیرت النبیؐ
علامہ شبلی نعمانی،سید
سلیمان ندوی |
مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد
2007 |
6)رحمۃاللعالمینؐ قاضی محمد
سلیمان منصور پوری |
مکتبہ دارالسلام ریاض 2011 |
7)سیرت النبیؐ
دکتور علی محمد صلابی |
دارالعلم ممبئ 2012 |
8)سیرت نبویؐ
ڈاکٹر مہدی رزق اللہ
احمد |
ادارہ اسلامیات لاہور
1994
|
9)سیرت النبیؐ
ابن ہشام |
مکتبہ قدوسیہ لاہور 1996 |
10)سیرت النبیؐ
ابو الفداعماد الدین ابن کثیر |
نفیس اکیڈمی کراچی |
11)طبقات ابن سعد محمد
بن سعد |
نفیس اکیڈمی کراچی 1987 |
12)تاریخ ابن کثیر
ترجمہ البدایہ و النہایہ
ابو الفداعماد الدین ابن کثیر |
ضیاء المصنفین بھیرہ شریف 2005 |
13)شرح سیرت ابن ہشام ترجمہ روض
الانف
امام ابو القاسم عبد الرحمان بن عبداللہ سہیلی |
مکتبہ دارالسلام ریاض
2003 |
14)اٹلس سیرت
نبویؐ
ڈاکٹر شوقی ابو خلیل |
مکتبہ قدوسیہ لاہور 2009 |
15)مشکوۃ النبوۃ
خالد
محمد سعید باقرین |
مکتبہ دارالسلام ریاض 2006 |
16)رحمت عالمؐ
سید سلیمان ندوی |
بیکن بکس لاہور
2011 |
17)پیغمبر اسلامؐ
ڈاکٹر محمد حمید اللہ |
المکتبہ السلفیہ لاہور
1998 |
18)الرحیق المختوم مولانا صفی
الرحما ن مبارکپوری |
نیشنل بک فاؤنڈیشن اسلام آباد
1998 |
19)تاریخ اسلام
شاہ معین الدین ندوی |
اسلامک پبلیکیشنز لاہور 2006 |
20)محمد عربیؐ عنایت
اللہ سبحانی |
القمر انٹرپرا ئزز
1997 |
21)حسنت جمیع خصالہ
طالب الہاشمی |
Comments
Post a Comment