نبی الرحمت ﷺ بحیثیت محسن انسانیت
ماہ ربیع الا ول وہ مبارک مہینہ ہے جس میں تاریخ انسانیت کےعظیم محسن حضرت محمد ﷺ اس دنیا میں تشریف لائے تھے۔ان کے ذریعہ
اللہ تعالی نے اسلام کی صورت میں مکمل ضابطہ حیات دیا اور زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی دے کر ایک مثالی معاشرہ کو قائم کیا جس کی نظیر
انسانی تاریخ میں نہیں ملتی ۔ انسانی ذہنوں کو شرک کی گندگی سے پاک کیا اور ان کو وحدت الہ کا قائل کیا ۔رسول ﷺ کا ارشاد ہے "کیا میں
تمھیں سب سے بڑا کبیرہ گناہ نہ بتاؤں " صحابہ نے کہاکیوں نہیں یا رسول اللہ :آپﷺ نے فرمایا اللہ کے ساتھ شریک بنانا اور والدین کی
نافرمانی"[1] پھر جب انسانی ذہن درست سمت کی طرف روانہ ہوا تو انسانیت کو شرف وتکریم بھی حاصل ہوئی ۔حجۃ الوداع کے مو قع پر
فرمایا":لوگو! تمہارا رب بھی ایک ہے اور تمہارا باپ بھی ایک ہے، خبردار! کسی عربی کو کسی عجمی پر اور کسی عجمی کو کسی عربی پر، کسی گورے کو کسی
کالے پر اور کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی فضیلت حاصل نہیں ہے، مگر تقویٰ کے ساتھ۔"[2] اس کے بعد فرمایا"اے لوگو عورتوں کے ساتھ
بھلائی کرو اور جان لو کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے پس مسلمانوں کے مال میں سے کوئی چیز حلال نہیں ہے سوائے اس چیز کے جو وہ اس کو خوشی
سے بخش دے۔لہذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرنا ۔[3]جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بکھری ہوئی قبیلے اور قومیں ایک ہو گئے ،انسانوں کی بندگی سے نکل
کے اللہ کی بندگی میں داخل ہوئے اور آپس میں بھائی بھائی بن گئے اور برتری
کا معیار صرف تقوی بن گیا۔[4]
رسول ﷺ نے علم کی قدر و قیمت اور مسلمان کو حصول علم کی طرف توجہ فرمائی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا ذکر کیا
گیا، ان میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عالم کی فضیلت عابد پر ایسی ہے جیسے میری فضیلت تم
میں سے ایک عام آدمی پر ہے“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آسمان اور زمین والے یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنی سوراخ میں اور
مچھلیاں اس شخص کے لیے جو نیکی و بھلائی کی تعلیم دیتا ہے خیر و برکت کی دعائیں کرتی ہیں۔"[5]اس تعلیم کو صرف ایک طبقہ تک محدود نہیں
رکھا بلکہ آپﷺ نے معاشرے کے ہر طبقہ کو استفادہ کا موقع دیا خصوصا خواتین اور غلاموں کو۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کہ نبوت سے پہلے عربوں
کی جو اخلاقی اور مذہبی حالت تھی پھر وہی ساری دنیا کے معلم اخلاق بن گئے ۔پورا معاشرہ علم کے نور سے منور ہوا ۔غلاموں اور عورتوں کی بڑی
تعداد کا شمار علماء میں ہوا جس میں حضرت عائشہ اور سالم مولی ابی حذیفہ شامل ہیں ۔ان کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا ۔" کہ قرآن
چارآدمیوں سے حاصل کرو یعنی ابن مسعودؓ ،سالم ؓمولی ابی حذیفہؓ ،ابی بن کعبؓ اورمعاذؓ بن جبل سے "[6]۔پھر جب مسلمانوں نے دوسرے
علاقے فتح کئے تو یہ علم کا نور بھی اسی طرح پھیلتا گیا ۔خلافت راشدہ ، بنو امیہ ،عباسیہ کے دور میں یہ علم و ترقی اپنے عروج کو پہنچا ۔رابرٹ
دیفالٹ لکھتے ہیں "یورپ کی حقیقی نشاۃ ثانیہ پندرہویں صدی میں نہیں بلکہ عربوں اور مُوروں کی احیائے ثقافت کے زیراثر وجود میں آئی
۔ یورپ کی نئی پیدائش کا گہوارہ اٹلی نہیں ہسپانیہ تھا۔ یہ براعظم بربریت کے گڑھوں میں گرتے گرتے جہالت و تنزل کی تاریک ترین
گہرائیوں میں پہنچ چکا تھا، حالانکہ اسی زمانے میں عربی دنیا کے شہر بغداد، قاہرہ، قرطبہ، طلیطلہ تہذیب اور ذہنی سرگرمی کے روزافزوں مرکز
بن چکے تھے۔ وہیں وہ زندگی نمودار ہوئی جس کو آئندہ چل کر انسانی ارتقا کی ایک نئی منزل کی شکل اختیار کرنا تھی۔ جس وقت اس ثقافت کے
اثرات معرضِ احساس میں آئے اسی زمانے میں ایک نئی زندگی کی حرکت شروع ہوئی۔‘‘[7]بقول مائیکل ہملٹن مورگن کہ 11 ویں صدی
کے قرطبہ کی آبادی صرف 50 لاکھ تھی مگر اس میں 300 مساجد، 50 اسپتال اور 300 حمام تھے۔ ان تمام چیزوں سے زیادہ اہم یہ ہے کہ
مسلمانوں کے صرف ایک شہر میں جتنی کتابیں تھیں اتنی کتابیں پورے یورپ میں بھی نہیں تھیں۔[8]
حضورﷺ نے اسلامی فلاحی ریاست کا تصور دیا۔انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے وہ اقدامات کئے جن کی وجہ سے مدینہ پہلی اسلامی فلاحی
ریاست کہلائی اور تمام ریاستوں سے ممتاز ہو گئی۔جس میں حکومت کی بنیاد خاندانی عصبیت کی جگہ دینی وحدت پر قائم تھی۔ریاست کے منتظم
کا انداز عام حکمرانوں سے یکسر مختلف تھا۔جہاں آپﷺ نے میثاق مدینہ ،مواخات مدینہ اور زکاۃ و صدقات کی صورت میں بہتر معاشی نظام
قائم کیا۔ریاست کی ذمہ داری تھی کہ وہ تعلیم صحت ،غذا ،تحفظ،جیسے بنیادی حقوق کو یقینی بنائے اور جس کا بیت المال رعایا کی معاشی مشکلات
کے حل کے لئے ہے اور وہ کسی حکمران کی ملکیت نہیں ہے۔
مختلف ذمہ داریوں میں سے ایک اہم ذمہ داری معاشرہ میں عدل وانصاف کی ترویج تھی، ریاست کے تمام طبقات کے ساتھ یکساں قانونی
برتاؤ، فیصلوں اور اُن کے نفاذمیں اعلیٰ وادنیٰ کی تقسیم کا خاتمہ، اور طاقتور کو کوئی بھی ریلیف دینے کی مکمل حوصلہ شکنی تھی ۔ قبیلہ مخزوم کی ایک
عورت چوری کے جرم میں پکڑی گئی، وہ ایک امیر گھرانے کی خاتون تھی۔ سردارانِ قریش نے حضرت اسامہ کو بارگاہِ رسالت میں سفارش
کے لئے بھیجا جنہیں آپ بہت زیادہ عزیز رکھتے تھے۔ لوگوں کا خیال تھا کہ حضور ﷺ قبیلہ کی عزت کا خیال کرتے ہوئے یقیناسزا میں
تخفیف کر دیں گے۔ اس کے برعکس جب حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت اسامہ کی بات سنی تو آپ کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا، آپ نے
لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا:
”تم سے پہلی قومیں اسی لیے ہلاک ہو گئیں کہ جب
اُن میں سے کوئی بڑا آدمی چوری کرتا تھا تو اُسے چھوڑ دیتے تھے لیکن جب کوئی عام
آدمی
چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے تھے۔ الله کی قسم! محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیتا"۔ [9]
آپﷺ کے ارشادات پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف روحانی اور جسمانی فوائد حاصل ہیں بلکہ نفسیاتی مسائل کا حل بھی موجود ہے
۔آپﷺ نے خوف ،ڈر ،غم ،احساس برتری اور احساس کمتری کا نہ صرف علاج بتایا بلکہ اس کے اسباب کو توجہ رکھتے ہوئے ان کا علاج
بھی فرمادیا ۔ایک دوسرے پر جاسوسی کرنے ،غیبت کرنے ،تکبر ، خود پسندی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔بد زبانی اور غرور سے منع کیا اور حسن
اخلاق کی طرف توجہ سی۔ان تمام محرکات کی حوصلی شکنی کی جو ان بیماریوں میں لوگوں کو مبتلا کرتی ہے ۔[10]رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
مسلمان وہ ہے جس کی زبان
اور ہاتھ (کے شر) سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ "[11]
[1] صحیح بخاری 254
2 مسند احمد۔:4568
3 سیرت ابن ہشام ،ج 2،ص389۔388،ترجمہسید یسین علی حسنی
4 الرحیق المختوم،،ص612
5 سنن الترمذی2685
6 تشکیلِ انسانیت، رابرٹ
بریفالٹ۔ مترجم عبدالمجید سالک۔ صفحہ 252 تا 254
[7]
Lost History- By Michal Hamilton
Morgan page-69
8 جامع ترمذی :1430
9 نبی اکرم ﷺ بطور ماہر نفسیات۔سیدہ سعدیہ غزنوی
10 سنن ترمذی:2627
Comments
Post a Comment