ماہ ربیع الاول اور عید میلادالنبیﷺ



ماہ ربیع الاول او رمیلاد النبی ﷺ

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوتے ہی ماہ ربیع الاول کے مبارکباد کے میسیجز موصول ہونے شروع ہو جاتے ہیں ۔مختلف جگہوں پر مختلف تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں ۔سبز رنگ کے کپڑوں کا استعمال ذیادہ ہونے لگتا ہے ۔اور جیسے جیسے 12 ربیع الاول قریب آتا ہے تو چراغاں کا بھی اہتما م شروع ہو جاتا ہے ۔بڑی بڑی محفلیں سجائی جاتی ہیں ۔نعتیں پڑھی جاتی ہیں اور دیگیں تقسیم کی جاتی ہیں ۔کیک کاٹے جاتے ہیں اور غبارے لگائے جاتے ہیں  اور ہر جگہ سے جلوس نکالے جاتے ہیں ۔

آپﷺ کی آمد دنیا کے لئے ایک نعمت ہے جنہوں نے انسانیت کو تاریکی سے نکال کر روشنی کی طر ف لے گئے ۔جنہوں نے انسانیت کو ایک معراج پر پہنچایا  اس لئے ایک مسلمان کے لئے ان کی پیدائش کسی نعمت سے کم نہیں اور ان کی پیدائش  کے مہینہ اور دن پر خوش ہونا ایک فطری امر ہے۔لیکن ان پر خوش ہونے کے لئے طریقہ بھی وہی اختیار کرنا چاہیئے جو جائز  ہو اور ہر اس راستے سے بچنا چاہیے جو نیکی کی بجائے گناہ کا سبب بنے ۔اور ہمیں وہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو حضورﷺ سےثابت ہو یا صحابہ کرام تابعین اور تبع تابعین سے منقول ہو ۔آپﷺ کی زندگی کے بارے میں سمجھنا ،اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنا آپﷺ کے اخلاق و شمائل کے بارے میں جاننا ،آپﷺ کی سیرت کے چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑی چیز کے بارے میں جاننا  اور اس کی دعوت دینا  عین عبادت ہے  اور انتہائی ضروری ہے لیکن ان سے مختلف ایسی چیزیں منسوب کرنا جن کا انہوں نے حکم نہ دیا ہو بدعت کہلاتی ہے۔

اگر تاریخ کو دیکھا جائے تو تو ابتدائی صدیوں میں عید میلاد النبی کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ۔اس کا آغاز سب سے پہلے 604ھ میں فاطمی خلیفہ     سلطان ابو سعید مظفر نے کیا ۔مختلف قسم کے جلوس نکالے جاتے اور حلوہ تیار کر کے لوگوں میں تقسیم کیا جاتا تھا۔برصغیر میں اس کا آغاز 1933 میں لاہور سے ہوا ۔

حضورﷺ نے مسلمانوں کے لئے عید کے دو دن مقرر کئے اور اگر یہ دن بھی عید ہوتا تو اس کو بھی حضورﷺ اپنی زندگی میں عید قرار دیتے ۔حضورﷺ نے نہیں کیا تو صحابہ کرام کے دور میں اس کو عید کہا جا سکتا تھا حلانکہ انہوں نے بھی ایسا نہیں کیا ۔پھر اگر سیرت کا مطالعہ کریں تو اس میں حضورﷺ کی پیدائش  کی تاریخ میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔ رسولؑﷺ   9 ربیع الاول 1 عام الفیل پیر کے دن صبح کے وقت پیدا ہوئے اور 20 یا 22 اپریل 571 کی تاریخ تھی-تاریخ ولادت کے بارے میں مؤرخین کا اختلاف ہے ابن خلدون نے 12 اور ابن کثیر نے 9 ربیع الاول کہا ہے لیکن  ماہر فلکیات محمود پاشا کی تحقیق اور بہت سے سیرت نگار 9 ربیع الاول پر متفق ہیں –جہاں تک پیر کا دن ہے اس پر تمام سیرت نگا ر متفق ہیں حضورؐ کی اس حدیث کی روشنی میں

"رسولؐ سے سوموار کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو  آپؐ نے فرمایا اس دن میری پیدائش ہوئی اور اسی دن مجھ پر وحی نازل کی گئی"(مسلم 1162)

صحابہ کرام ہم سے ذیادہ رسول اللہﷺ سے محبت کرنے والے ،نیکیوں پر سب سے ذیادہ حریص  اور ہم سے ذیادہ عبادات کا شوق رکھنے والے تھے لیکن کبھی بھی انہوں نے اپنے دور میں کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے پتا چلتا ہو کہ اس عید کا اسلام میں کوئی تصور موجود ہے۔قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں "تمھارے لئے اللہ کے رسول ﷺ میں ایک بہترین نمونہ ہے"(33:21)۔رسول ﷺ نے فرمایا"بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین طریقہ محمدﷺ کا طریقہ ہےاور بدترین کام نیا ایجاد کردہ کام ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے "(مسلم)۔ 

پھر یہ محفل دوسرے ناجائز کاموں  سے بھی خالی نہیں ہوتی۔گانا بجانا،شرکیہ نعتیں پڑھنا،آپﷺ سے سوال کرنا ،یہ تصور کرنا کہ حضورﷺ اب محفل میں تشریف لائیں گے،ان سے سوال کرنا،مدد طلب کرنا اور فریاد کرنا ،حضورﷺ کے بارے میں غلو کرنا حالانکہ حضورﷺ نے فرمایا"تم لوگ دین میں غلو سے اجتناب کرو کیونکہ تم سے پہلی امتوں کو اسی دین میں  غلو  کی وجہ سے تباہ کر دیا"(نسائی)اور فرمایا"میری تعریف میں ایسے  حد سے نہ گزرو جس طرح عیسائی عیسی ابن مریم کی تعریف میں حد سے بڑھ گئےاس لئے یوں کہو کہ یہ اللہ کا بندہ اور  اس  کے  رسول ہیں"(بخاری)

ولادت کی خوشی میں ہمیں یہ عزم کرنا چاہیئے کہ اللہ اور  اسکے رسول ﷺ کی اتباع کریں بلکہ کسی دن اور سال کو مقرر کئے بغیر آپ کی دنیا میں آمد پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیئے۔کثرت سے درود پڑھنا چاہئے ،کیونکہ حضورﷺ نے فرمایا  جس نے مجھ پر ایک بار درور پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل کرے گا"(مسلم)۔حضورﷺ کی سنتوں پر ذیادہ سے ذیساہ عمل کرنا چاہیئے ۔ان کی سیرت پڑھنی چاہیئے ۔ان کے احکامات کے مطابق زندگی گزارنی چایئے۔کیونکہ مذہب اسلام ایسا نہیں ہے کہ سال میں ایک دن جوش و خروش سے منایا جائےاور سال کے باقی دن رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات سے انحراف  اور دین کو صرف کچھ رسومات تک محدود رکھا جائے ۔

 سرکارِ دوعالم  صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ


’’
تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک پورا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس دین وشریعت کے تا بع نہیں ہوتیں جس کو

 میں خدا کی جانب سے لایا ہوں ۔‘‘      (مشکوٰۃ، ج:۱، ص: ۳۰)ایک اور جگہ ارشاد فرمایا:  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہجس شخص

 نے میری سنت کو محبوب رکھا اس نے مجھ کو محبوب رکھا اور جس نے مجھ کو محبوب رکھا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا ۔‘‘    (مشکو ۃ، ج :۱، ص:

۳۰)

عید میلاد النبی کا شرعی و تاریخی جائزہ :ابو عبد الرحمان

اختلاف امت اور صراط المستقیم:مولانا محمد یوسف لدھیانوی

فتاوی جامعہ بنوریہ

الرحیق المختوم :صفی الرحمان مبارکپوری

  

Comments

Popular posts from this blog

سفرنامہ ترکی (حصہ اول)

سفرنامہ ترکی (آخری قسط)استنبول

رجب کا مہینہ ،اہمیت اور اس کی بدعات